ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات و ضروریات پوری کردے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات و حاجات پوری کردے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خودمختار ہے۔ البتہ! ہم اس دارالاسباب میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں تاکہ بوقتِ حاجت و ضرورت ہماری نگاہ و توجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔ اس بات میں تو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں ہیں، لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی ہے، کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب اس ترک اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہوکہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص و ہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرز عمل کی تعلیم نہیں دیتی بلکہ سیرت نبویﷺ اور سیرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو حلال طریقے سے کسب معاش کی تعلیم دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنا کرکے کھائو، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائو۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین و ایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقروفاقہ کہیں کفر و شرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ ہاں اولیاء اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائز لوگوں کا معاملہ اور ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی زریں نصائح: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال و دولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ درہم و دینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین و امراء ہمیں دست و پا بنا کر ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج و مفلس ہوگا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہوگا۔ توضیحات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہےکہ پچھلے زمانہ میں مال و دولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، مومن اور متقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے کیونکہ عام ماحول زہد و تقویٰ کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل و فقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے، اس لئے لوگ مال و دولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب و فقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے۔ نیز حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروں اور حکمرانوں کا دست نگر اور دست و پا بن جائے گا اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کیلئے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔ پھر مزید لکھا ہے جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہوتو اس کو کسی کاروبار میں لگادے یہ اسکی ترقی و بڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے، اسراف نہ کرے۔ (۷/۳۷۵،مکتبہ عصریہ، کراچی) کمائی کے ذرائع: کسب معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے؟ اس کے تعین میں سلف صالحین کا اختلاف ہے، اس بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بہترین کتاب ’’فضائل تجارت‘‘سے خلاصۃً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب ؒ فرماتے ہیں: میرے نزدیک کمائی کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اور ہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت وحرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسباب آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں، ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا، میرے نزدیک صحیح نہیں، اس لئے کہ نرا صنعت و حرفت کمائی نہیں ہے، کیونکہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے وہ جوتے بنابناکر کوٹھی بھرلے، اس سے کیا آمدنی ہوگی؟ یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہوکر اس کا (مال) بنائے۔ یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آگئے اور اس سے بھی زیادہ قبیح ’’جہاد‘‘ کو کمائی کے اسباب شمار کرنا ہے، اس لئے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہوگئی تو جہاد ہی باطل ہے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے، اس لئے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے، تعلیم و تعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کرسکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کیلئے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے، اس لئے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہ مجبوری ہے۔ در حقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتدبہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ محض عطیہ الٰہی سمجھتے تھے جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بناء پر میں اجارہ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے۔ اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے، اس لئے کہ تا جر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کرسکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں آیات و احادیث ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کیلئے بہشت (تیار) کی ہے۔
اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے: سچا، امانت دار تاجر (قیامت میں) انبیاء کرام علیہ السلام، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ بہترین کمائی ان تاجروں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تاکہ بیچنے والا قیمت کم کرکے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تاکہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہوتو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خون ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہوگا۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تاجر میں چار باتیں آجائیں تو اس کی کمائی پاک ہوجاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے اور بیچنے میں گڑبڑ نہ کرے اور خریدو فروخت میں قسم نہ کھائے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خرید و فروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، اگر بائع و مشتری سچ بولیں، مال، قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کو بیان کردیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپالیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کمالیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کردیتے ہیں۔ فرمایا: رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتائو کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔ تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ: کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھالے تو یہ بھی اس کیلئے صدقہ ہے اور مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں سے کچھ چوری ہوجائے تو وہ بھی اس کے لئے صدقہ شمار ہوتا ہے اور ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت ہے، کیونکہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں سے؟ باقی اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعد شرعیہ کی رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں اوجز المسالک ۵/۲۲۰، باب کراء الارض میں بہت لمبی بحث کی گئی ہے اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی تینوں میں نہیں بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔ ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے بلکہ ہر عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے جس کو احیاء العلوم ۲/۶۴ میں مستقل باب کے تحت بیان کیا ہے چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’بیع اور شراء کے ذریعہ مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے جو اس مشغلہ میں لگا ہوا ہو، کیونکہ طلب علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہوگا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت ہو اور کسب کرنے والا کسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف
ہوجائے گا، لہٰذا ان سے بچے گا اور ایسے شاذو نادر مسائل جو باعث اشکال ہوں، ان کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کرکے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا کیونکہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ میں کس کے بارے میں توقف کروں اور سوال کرکے اس کو جانوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں گا جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش آئے گا تو معلوم کرلوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو اجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا تجھے کیسے پتہ چلے گا کہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔ لہٰذا علم تجارت سے اول اس قدر جاننا ضروری ہے کہ جس سے جائز و ناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے اور کس میں اشکال ہے۔ (ملخص من فضائل تجارت، ص:۴۸۔۷۲ مکتبہ البشریٰ) ان تفصیلات کے بعد ہم سب کیلئے ازحد ضروری ہے کہ ہم حدود شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسب معاش کریں اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کرلیں۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کرلیا ہو۔ اللہ رب العزت زندگی کے ہر شعبے میں احکامات معلوم کرکے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!(بشکریہ! ختم نبوت)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں